سورة ھود - آیت 35

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ﴾ ” کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے“ اس ضمیر میں اس امر کا احتمال ہے کہ وہ نوح علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہوجیسا کہ پورا سیاق ان کی قوم کے ساتھ ان کے معاملے کے بارے میں ہے اور اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ کہتے تھے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ پر افتراء پردازی کی ہے اور جھوٹ بولا ہے کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے اور اللہ نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ کہہ دے۔ ﴿قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ ﴾ ”کہہ دیجیے، اگر میں نے اسے گھڑا ہو، تو مجھ پر ہے میرا گناہ اور میں تمہارے گناہوں سے بری ہوں“ یعنی ہر شخص کا بوجھ خود اسی پر ہے ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ﴾ (الانعام:6؍164)” کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ “ اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر کا مرجع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اس صورت میں یہ آیت کریمہ، حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے قصہ کے اثناء میں، جملہ معترضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا تعلق ایسے امور سے ہے جنہیں انبیاء کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کرنا شروع کیا اور یہ قصہ ان نشانیوں میں سے تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور رسالت پردلالت کرتی ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی تکذیب کا ذکر فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ پوری طرح کھول کھول کر آیات بیان فرمائیں چنانچہ فرمایا : ﴿أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ  ﴾ ” کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے۔“ یعنی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ یہ انتہائی عجیب اور باطل ترین قول ہے، کیونکہ انہیں علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں، اہل کتاب کے علوم سیکھنے کے لئے آپ نے کہیں سفر بھی نہیں کیا، بایں ہمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب پیش کی اور جس کے بارے میں کفار کو مقابلے کی دعوت دی کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لائیں۔ اس کے باوجود اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ افتر اور بہتان ہے تو معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت، حق سے عناد رکھتے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ بحث کرنے اور دلیل کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہا، بلکہ ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ آپ ان سے کنارہ کشی کریں۔ اس لئے فرمایا : ﴿قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي ﴾ ” کہہ دیجیے کہ اگر میں نے اسے گھڑا ہو تو مجھ پر ہے اس کا گناہ“ یعنی میرا گناہ اور میرا جھوٹ میرے ذمہ ہے ﴿وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ ﴾ ” اور جو گناہ تم کرتے ہو اس سے میں بری ہوں۔“ پھر تم مجھے جھٹلانے پر کیوں اصرار کررہے ہو۔