وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ یہ میں کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انھیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں (١) ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہوجائے گا (٢)۔
﴿وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ ﴾ ” اور میں تم سے نہیں کہتا ہے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں“ یعنی میری انتہا یہ ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہوں، میں تمہیں خوشخبری سناتا ہوں اور تمہیں برے انجام سے ڈراتا ہوں، اس کے علاوہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے نہیں ہیں کہ میں ان میں تصرف کروں جس کو چاہوں عطا کروں اور جس کو چاہوں محروم کر دوں۔ ﴿وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ﴾ ” اور میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں“ کہ میں تمہارے سینے کے بھیدوں اور تمہارے ”رازوں“ کے بارے میں تمہیں آگاہ کرسکوں۔ ﴿وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ ﴾ ’’اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔“ یعنی میں اپنے مرتبہ سے بڑھ کر کسی مرتبہ کا دعویٰ نہیں کرتا۔ نہ میں اس کے سوا کسی منزلت کا دعویٰ کرتا ہوں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے اور نہ میں لوگوں کے بارے میں اپنے ظن اور گمان کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ ﴿وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ ﴾ ” اور نہ میں کہتا ہوں کہ جو لوگ تمہاری آنکھوں میں حقیر ہیں“ یعنی وہ کمزور اہل ایمان جن کو کافر سرداران قوم حقیر سمجھتے تھے۔ ﴿لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرًا ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ﴾ ” اللہ ان کو ہرگز بھلائی نہ دے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے“ اگر وہ اپنے ایمان میں سچے ہیں تو ان کے لئے خیر کثیر ہے اور اگر وہ اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیں تو ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ ﴿إِنِّي إِذًا ﴾ ” بے شک میں تب“ یعنی اگر میں نے تم سے اس بارے میں کچھ کہا جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے ﴿لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” ظالموں میں سے ہوں گا“نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو اس بات سے مایوس کردینا ہے کہ وہ کمزور اہل ایمان کو اپنے سے دور کریں یا ان کو ناراض کرلیں اور اپنی قوم کو ایسے طریقوں سے سمجھانے کی کوشش ہے جو ایک انصاف پسند شخص کو سمجھنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔