سورة البقرة - آیت 143

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا (١) تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہوجائیں جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے (٢) گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ان پر کوئی مشکل نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا (٣) اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس امت پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اسے امت وسط بنایا۔ فرمایا :﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا﴾ ” اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا۔“ یعنی معتدل اور بہترین امت“ ” وسط“ کے علاوہ اور اطراف خطرے کی زد میں ہیں اللہ تعالیٰ نے دین کے ہر معاملے میں اس امت کو معتدل امت بنایا ہے۔ انبیائے کرام کے ساتھ عقیدت کے حوالے سے بھی امت مسلمہ کو ان امتوں کے مابین معتدل امت بنایا ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں جیسے عیسائی ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ظلم و جفا کرنے والوں کے مابین بھی اسے معتدل امت بنایا کہ وہ سب پر اس طرح ایمان لائے جو ان کی شان کے لائق ہے۔ جب کہ یہودیوں نے انبیاء علیہم السلام کی توہین و تنقیص کی۔ امت مسلمہ شریعت کے اعتبار سے بھی امت وسط ہے اس میں نہ تو یہودیوں کی شریعت کی سی سختی اور بوجھ ہے اور نہ عیسائیوں کی سی نرمی اور لا پرواہی۔ طہارت اور مطعومات کے باب میں بھی۔ نہ یہودیوں کی طرح (سختی ہے) جن کے ہاں ان کی عبادت گاہ اور کنیسہ کے سوا کہیں نماز نہیں ہوتی۔ پانی ان کو نجاستوں سے پاک نہیں کرسکتا۔ سزا کے طور پر ان پر طیبات حرام ٹھہرا دی گئیں اور نہ نصاریٰ کی مانند (نرمی ہے) کہ وہ کسی چیز کو نجس ہی نہیں مانتے اور نہ ان کے ہاں کوئی چیز حرام ہے بلکہ انہوں نے ہر چیز کو حلال ٹھہرا لیا ہے، بلکہ اہل ایمان کی طہارت کامل ترین طہارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ہر قسم کی طیب و طاہر مطعومات، شمروبات، ملبوسات اور پاک عورتیں مباح ٹھہرا دی ہیں اور تمام خبائث ان کے لیے حرام قرار دے دیئے۔ بنا بریں اس امت کا دین سب سے کامل، اس کے اخلاق سب سے اچھے اور اس کے اعمال سب سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو علم و حلم اور عدل و احسان سے جس طرح نوازا ہے، اس طرح ان کے علاوہ کسی اور امت کو یہ چیزیں عطا نہیں کیں۔ اس لیے وہ﴿اُمَّۃً وَّسَطًا﴾” امت وسط“ یعنی کامل اور معتدل امت کہلانے کی مستحق ہے۔﴿شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ﴾ تاکہ وہ اپنی عدالت اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے سبب سے لوگوں پر گواہ ہوں اور وہ تمام اہل ادیان کے لوگوں سے متعلق فیصلے کریں اور ان کی بابت دوسرے فیصلے نہ کریں۔ پس جس چیز کی بابت یہ امت قبولیت کی شہادت دے، وہی مقبول اور جسے رد کرنے کی گواہی دے، وہ مردود ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ دوسروں کے بارے میں ان کا فیصلہ کیسے قابل قبول ہے حالانکہ تنازع میں دونوں ایک دوسرے کے مخالف فریق ہیں اور فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف قابل قبول نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی تنازع میں فریقین کا قول ایک دوسرے کے خلاف وجود تہمت کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہوتا مگر جب تہمت کا شائبہ ختم ہوجائے اور عدالت کامل حاصل ہوجائے، جیسا کہ یہ امت عدالت کامل کی حامل ہے۔ مقصد تو حق اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اور اس کی شرط علم و عدل ہے اور یہ دونوں چیزیں اس امت میں موجود ہیں۔ اس لیے اس امت کا قول قابل قبول ہے۔ اگر کوئی شک کرنے والا اس امت کی فضیلت میں شک کرے اور اس کے لیے تزکیہ کرنے والے کا مطالبہ کرے، تو اس کا تزکیہ کرنے والے اس امت کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات میں ایک کامل ترین ہستی ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ۭ﴾ ” اور رسول تم پر گواہ ہوگا‘‘ اس امت کی دوسری قوموں پر گواہی اس طرح ہوگی کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ انبیاء مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین سے ان کی تبلیغ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی امتیں اس تبلیغ کی تکذیب کریں گی اور کہیں گی کہ انبیاء و مرسلین نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک نہیں پہنچایا، تو انبیائے کرام علیہم السلام اس امت سے گواہی لیں گے اور ان کا نبی ان کا تزکیہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت مسلمہ کا اجماع قطعی حجت اور دلیل ہے، کیونکہ یہ امت (مجموعی طور پر) ﴿وَّسَطًا﴾” امت وسط“ کے اطلاق کی بنا پر خطا سے معصوم ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ امت مسلمہ خطا پر متفق ہوسکتی ہے تو یہ ” امت وسط“ نہ رہے گی۔ سوائے چند امور کے ﴿لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ ﴾ ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔“ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے کہ جب وہ کسی فیصلہ کے متعلق گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال قرار دیا ہے یا اس کو حرام قرار دیا ہے یا اسے واجب کیا ہے، تو یہ درست ہے اس لیے کہ یہ امت اس بارے میں معصوم ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے، گواہی دینے اور فتوی وغیرہ دینے کے لیے عدالت شرط ہے۔ یعنی اسلام کے ابتدائی دنوں میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے حکم سے مقصود یہ تھا۔ ﴿ اِلَّا لِنَعْلَمَ﴾” تاکہ ہم جان لیں“ یعنی ایسا جاننا جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے۔ [ مصنف رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ایسا علم جس سے ثواب و عقاب متعلق ہے“ ایک مبہم عبارت ہے جو وضاحت کی محتاج ہے ہم ائمہ تفسیر امام نسفی، امام ابوالسعود، امام ابن کثیر اور امام ابوحیان رحمہم اللہ نے جو کچھ اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے یہاں ذکر کرتے ہیں پس ہم کہتے ہیں کہ (لنعلم) کا مطلب ہے، تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کرسکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے سامنے ان کا حال منکشف ہوجائے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ﴾( آل عمران:3؍ 179) ” حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے“ پس اللہ تعالیٰ نے ” علم“ کو ”تمیز‘‘ کی جگہ میں استعمال کیا ہے، کیونکہ علم ہی سے تمیز ہوتی ہے اور وہی تمیز کا سبب ہے۔ لہٰذا سبب یعنی علم کا اطلاق کر کے مسبب یعنی تمیز مراد لی گئی ہے۔ ہمارے اس موقف کی تائید ایک قراءت سے بھی ہوتی ہے ﴿لِیُعْلَمَ﴾ یعنی ” نون“ کی بجائے ” یا“ اور صیغہ مجہول کے ساتھ۔ (تاکہ جان لیا جائے) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے علم کو اپنی طرف اسناد کیا ہے، کیونکہ وہ اس کے خاص بندے ہیں، یا یہ ملاطفت خطاب ہے، مثلاً آپ اس شخص سے جو سونے کے پگھلنے کا منکر ہے، کہتے ہیں ’’ہم سونے کو آگ میں ڈالتے ہیں، تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ آیا سونا پگھلتا ہے یا نہیں۔ “ الجرالمحیط میں علامہ ابوحیان رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ” اللہ تعالیٰ کے ارشاد ( لِنَعْلَمَ ) میں اس علم سے مراد ابتدائے علم ہے (یعنی پہلے سے ہی ہمیں معلوم تھا) اس کا ظاہر معنی مراد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم کا حادث ہونا محال ہے۔ ( یعنی یہ ناممکن ہے کہ پہلے اللہ کے علم میں نہ ہو اور بعد میں اسے معلوم ہو) چنانچہ تاویل کرتے ہوئے مضاف کو محذوف مانا جائے گا۔ تب آیت کا مفہوم یہ ہوگا ” تاکہ ہمارا رسول اور اہل ایمان جان لیں“ ان کے علم کو اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان اس کے مقرب بندے ہیں تب اس کا شمار مجاز حذف میں ہوگا یا علم کا اطلاق تمیز پر کیا گیا ہے کیونکہ علم ہی کی بنا پر تمیز ہوتی ہے۔ یعنی ” تاکہ ہم اتباع کرنے والے اور منہ موڑنے والے کے درمیان امتیاز کرلیں“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ﴾( آل عمران: 3؍ 179) ”حتیٰ کہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے‘‘ اور اس طرح اس کا شمار اطلاق سبب کے مجاز میں سے ہوگا اور مراد اس سے مسبب ہوگا۔ یہ تاویل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مردی ہے۔۔۔ یا اس سے ان کی اطاعت یا معصیت کے وقت اللہ تعالیٰ کے علم کا ذکر مراد ہے، کیونکہ اس وقت کے ساتھ ہی اس علم کا تعلق ثواب و عقاب سے ہوگا یا یہاں مستقبل سے ماضی مراد لیا ہے۔ تب مفہوم یہ ہوگا ”جب ہم نے جان لیا کہ رسول کی اتباع کون کرتا ہے اور اس کی مخالفت کون کرتا ہے۔“ (ملحضاً) حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں یہ معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور یہ معنی بنایا ہے ” تاکہ اہل ایمان جان لیں اور کمزور ایمان والے لوگوں کا حال منکشف ہوجائے“ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم نے تیرے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تھا پھر ہم نے تجھے کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ ان لوگوں کا حال ظاہر ہوجائے جو تیری اتباع کرتے ہیں، تیری اطاعت کرتے ہیں اور تیرے ساتھ مل کر قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کا حال ظاہر ہوجائے جو الٹے پاؤں پھرجاتے ہیں۔ (حاشیہ : از محمد زہری النجار، من علمائے ازہر) ] ورنہ اللہ تعالیٰ تمام امور کو ان کے وجود میں آنے سے قبل جانتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کامل عدل اور اپنے بندوں پر حجت قائم کرنے کی بنا پر اس علم کے ساتھ ثواب اور عقاب کا تعلق نہیں، بلکہ جب ان کے اعمال وجود میں آتے ہیں تب ان پر ثواب و عقاب مرتب ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ قبلہ صرف اس لیے مشروع کیا ہے، تاکہ ہم جان لیں اور آزما لیں ﴿مَنْ یَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ﴾ ” کون رسول کی اتباع کرتا ہے۔“ یعنی کون اس رسول پر ایمان لا کر ہر حال میں اس کی پیروی کرتا ہے، کیونکہ وہ بندہ مامور اور اللہ تعالیٰ کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ نیز کتب سابقہ نے خبر دی ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کو قبلہ بنائیں گے پس صاف انصاف جس کا مقصود و مطلوب محض حق ہے، اس سے اس کے ایمان اور اطاعت رسول میں اضافہ ہوتا ہے۔ رہا وہ شخص جو الٹے پاؤں پھر گیا اور اس نے حق سے روگردانی کی اور اپنی خواہش نفس کی پیروی کی تو اس کا کفر بڑھتا جاتا ہے اور اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ شبہات پر مبنی باطل دلیل پیش کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ﴿وَاِنْ کَانَتْ﴾ ” اور بلاشبہ یہ بات۔“ یعنی (عام لوگوں کے لیے) آپ کا بیت المقدس سے منہ پھیرنا ﴿لَکَبِیْرَۃً﴾” بہت شاق ہے“ ﴿اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ ۭ﴾ ” سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے ہدایت دی“ اور انہوں نے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان لیا، وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اقرار کیا کہ اس نے ان کا رخ اس عظیم گھر کی طرف پھیر دیا جسے اس نے روئے زمین کے تمام خطوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کا قصد کرنے کو ارکان اسلام میں سے ایک رکن اور گناہوں کو مٹانے والا بنایا ہے، اسی لیے اہل ایمان پر اس کا ماننا آسان ہوگیا اور ان کے سوا دیگر لوگوں پر رخ کی تبدیلی بہت شاق گزری۔ ﴿ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ۭ ﴾ ” اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی ضائع کر دے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب ہے نہ یہ اس کے ذات اقدس کے لائق ہے (کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے) بلکہ ایسا کرنا تو اس پر ممتنع (ناممکن) ہے، پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنا اس کی ذات اقدس پر ممتنع اور محال ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور ایمان سے نواز کر ان پر احسان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حفاظت کرے گا اسے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ کا ایمان کی حفاظت کرنا دو طرح سے ہے: (١) ان کو ہر فساد، ایمان میں نقص پیدا کرنے والی تکلیف وہ آزمائشوں اور ایمان سے روکنے والی خواہش نفس سے بچا کر ان کے ایمان کو ضائع اور باطل ہونے سے محفوظ رکھنا۔ (2) ایمان کی نشو و نما کے لیے ان کو ایسے اعمال کی توفیق عطا کرنا جن سے ان کے ایمان میں اضافہ اور یقین کامل حاصل ہوتا ہے۔ پس ابتدائی طور پر جس طرح اس نے ایمان کی طرف تمہاری راہنمائی کی، اسی طرح وہ تمہارے ایمان کی حفاظت کرے گا۔ اس کو اور اس کے اجر و ثواب کو نشو و نما دے کر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا اور ایمان کو مکدر کرنے والے ہر عمل سے اس کی حفاظت کرے گا، بلکہ جب ایسی آزمائشیں آئیں جن سے مقصود سچے مومن کو جھوٹے دعوے دار سے الگ کرنا ہو، تو یہ آزمائشیں مومنوں کو کھرا ثابت اور ان کی سچائی کو ظاہر کر دیتی ہیں۔ گویا اس آیت میں اس بات سے احتراز (بچاؤ) ہے جو کہی جاسکتی تھی کہ اللہ کا قول ﴿ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ۭ﴾۔ کبھی کبھی بعض مومنوں کے لیے ترک ایمان کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کا ازالہ کرتے ہوئے : ﴿وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِـیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ۭ﴾ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس امتحان یا دیگر کسی آزمائش کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں وہ تمام اہل ایمان بھی شامل ہیں جو تحویل قبلہ سے پہلے وفات پا چکے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے اپنے وقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت یہی ہے کہ ہر وقت اس کے حکم کی پیروی کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اہل سنت و الجماعت کے اس مذہب کی دلیل ہے کہ ایمان میں اعمال جو ارح داخل ہیں۔ ﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ” اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان اور صاحب رحمت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر بہت زیادہ رحمت ورأفت کرنے والا ہے۔ یہ اس کی عظیم رحمت ورأفت ہے کہ اس نے اہل ایمان کو نعمت ایمان عطا کر کے اس نعمت کو مکمل کیا اور ان کو ان لوگوں سے علیحدہ کردیا جو ایمان کا صرف زبانی دعویٰ کرتے تھے۔ ان کے دل ایمان سے خالی تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا امتحان لیا جس کے ذریعے سے ان کے ایمان میں اضافہ اور ان کے درجات بلند کیے اور سب سے زیادہ عزت و شرف کے حامل گھر کی طرف ان کا رخ موڑ دیا۔