وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ
اور اگر ہم اسے کوئی مزہ چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں (١) یقیناً وہ بڑا اترانے والا شیخی خور ہے (٢)
اور جب اللہ تعالیٰ اسے تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہے، اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، تو خوش ہوتا ہے اور اتراتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ بھلائی کے پاس ہمیشہ رہے گی اور کہتا ہے ﴿ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ ﴾ ” دور ہوگئیں برائیاں مجھ سے، بے شک وہ تو اترانے والا، شیخی خورہ ہے“ یعنی اسے جو کچھ اس کی خواہشات نفس کے موافق عطا کیا گیا ہے اس پر خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کے بندوں کے سامنے فخر اور تکبر کا اظہار کرتا ہے اور یہ چیز اسے غرور، خود پسندی، مخلوق الہٰی کے ساتھ تکبر کرنے، ان کے ساتھ حقارت سے پیش آنے اور انہیں کم تر سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا عیب ہوسکتا ہے؟