فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔
﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ ﴾ ” پس کیوں نہ ہوئی کوئی بستی“ یعنی جھٹلانے والی بستیوں میں سے، ﴿ آمَنَتْ﴾ ” کہ وہ ایمان لائی“ جب انہوں نے عذاب دیکھا ﴿فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا ﴾ ” پھر کام آیا ہو ان کو ان کا ایمان لانا“ یعنی ان تمام بستیوں میں سے کسی بستی کو عذاب دیکھ کرا یمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوا جیسا کہ فرعون کے ایمان لانے کے بارے میں گزشتہ صفحات میں قریب ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد گزر چکا ہے اور جیسے فرمایا : ﴿فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ﴾ (المومن: 40؍84۔85) ” پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا، تو کہا ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور ان کا ہم نے انکار کیا جن کو ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے، لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کو ان کے ایمان لانے نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔“ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ ﴾ ﴿المومنون : 23؍ 99۔100) ” حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی، تو وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! مجھے دنیا میں پھر واپس بھیج دے شاید کہ میں جسے پیچھے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں، ہرگز نہیں !“ اور اس میں حکمت ظاہر ہے کہ ایمان اضطراری حقیقی ایمان نہیں اگر اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو دور ہٹا لے جس سے مجبور ہو کر انہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا، تو وہ پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں گے۔ فرمایا : ﴿إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ﴾ ” سوائے یونس کی قوم کے، جب وہ ایمان لائی، (عذاب دیکھ لینے کے بعد) تو ہم نے ان پر سے ذلت کا عذاب اٹھا لیا دنیا کی زندگی میں اور ایک وقت تک ہم نے ان کو فائدہ پہنچایا“ پس حضرت یونس علیہ السلام کی قوم گزشتہ عموم سے مستثنیٰ ہے اس میں ضرور اللہ تعالیٰ ” عالم الغیب والشھادۃ“ کی حکت پوشیدہ ہے۔ جہاں تک پہنچنے اور اس کے ادراک سے ہمارا فہم قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ۔۔۔۔۔۔۔ وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ﴾ (الصافات : 37؍139۔148) ” اور یونس اللہ کے رسولوں میں سے تھا جب وہ (گھر سے) بھاگ کر بھری ہوئی کشتی میں سوار ہوا، اس وقت قرعہ ڈالا گیا تو اس نے زک اٹھائی پس اس کو مچھلی نے نگل لیا اور وہ قابل ملامت کام کرنے والوں میں سے تھا۔ پس اگر وہ اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتا تو قیام کے روز تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا، پھر ہم نے اس کو (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) اس حالت میں کھلے میدان میں ڈال دیا کہ وہ بیمار تھا اور اس پر کدو کی بیل لگا دی اور اس کو ایک لاکھ یا کچھ اوپر لوگوں کی طرف مبعوث کیا۔ پس وہ ایمان لے آئے اور ہم نے ان کو ایک وقت مقرر تک فائدہ اٹھانے دیا۔ “ شاید اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے علاوہ کوئی اور قوم ہوتی اور ان پر سے عذاب کو ہٹا لیا جاتا تو وہ پھر اسی کام کا اعادہ کرتے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور رہا یونس علیہ السلام کی قوم کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں زیادہ جانتا تھا کہ وہ اپنے ایمان پر قائم رہیں گے، بلکہ وہ قائم رہے۔ واللہ اعلم۔