سورة یونس - آیت 81

فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سو جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے۔ یقینی بات ہے کہ اللہ اس کو بھی درہم برہم کئے دیتا ہے (١) اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا (٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ فَلَمَّا أَلْقَوْا ﴾ ” پس جب انہوں نے ڈالا“ یعنی جب انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں، تو یوں لگا جیسے دوڑتے ہوئے سانپ ہوں۔ ﴿قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ﴾ ” موسیٰ نے کہا جو تم نے پیش کیا ہے، وہ جادو ہے“ یعنی یہ بہت بڑا اور حقیقی جادو ہے۔ مگر اس جادو کے بڑاہونے کے باوجود ﴿إِنَّ اللَّـهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” اللہ اسے باطل کر دے گا، یقیناً اللہ شریروں کے کام کو نہیں سنوارتا۔“ کیونکہ وہ اس کے ذریعے سے حق کے خلاف باطل کی مدد کرنا چاہتے تھے اور اس سے بڑا اور کون سا فساد ہوسکتا ہے؟ اسی طرح ہر مفسد جب کوئی کام کرتا ہے یا کوئی چال چلتا ہے یا حق کے خلاف کوئی سازش کرتا ہے، تو اس کا عمل باطل ہو کر زائل ہوجاتا ہے ہرچند کہ کسی وقت مفسد کا عمل رائج ہوجاتا ہے مگر مآل کار اسے مٹنا اور زائل ہونا ہے۔ رہے اصلاح کار، تو ان کے اعمال میں ان کا مقصد، اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ یہ اعمال و وسائل فائدہ مند ہیں اور ان اعمال کا ان کو حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان میں ترقی عطا کرتا ہے اور ان کو ہمیشہ نشو ونما دیتا رہتا ہے۔