سورة البقرة - آیت 134

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ بدیہی طور پر معلوم ہے کہ یہودی حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کے وقت موجود نہ تھے کیونکہ وہ تو ان کی وفات کے بعد وجود میں آئے۔ جب وہ اس وقت موجود نہ تھے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو یہودیت کی نہیں بلکہ حنیفیت کی وصیت فرمائی تھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :﴿تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ﴾ یعنی وہ امت گزر گئی﴿لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ﴾” اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمہارے لیے وہ جو تم کماؤ گے“ یعنی ہر شخص کا اپنا عمل ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کے فعل کی جزا دے گا۔ وہ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے گناہوں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا اور کسی شخص کو صرف اس کا اپنا ایمان اور تقویٰ ہی کام دے گا۔ پس تمہارا اس زعم میں مبتلا ہونا اور تمہارا یہ دعویٰ کہ تم ان انبیاء علیہ السلام کی ملت پر ہو مجرد و دعویٰ اور ایک ایسا معاملہ ہے جو حقیقت سے خالی ہے، بلکہ تم پر فرض ہے کہ تم اپنی موجودہ حالت پر غور کرو۔ کیا یہ نجات دلانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟