وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہوچکی ہیں (١) اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا (٢) اس میں کوئی بات شک کی نہیں (٣) کہ رب العالمین کی طرف سے ہے (٤)۔
﴿وَمَا كَانَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّـهِ ﴾ ” اور نہیں ہے یہ قرآن کہ اسے گھڑ لیا جائے اللہ کے ورے ورے ہی“ یعنی یہ غیر ممکن اور غیر متصور ہے کہ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ پر گھڑ لیا گیا ہو کیونکہ یہ عظیم کتاب ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا : ﴿ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴾ (حم السجدۃ: 41؍42) ” باطل کا دخل اس میں آگے سے ہوسکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ دانا اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے۔“ یہ ایسی کتاب ہے ﴿ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴾ (بنی اسرائیل : 17؍88) ” اگر تمام انسان اور جن اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنا کر لائیں تو اس جیسے کوئی کتاب نہ لا سکیں گے خواہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔ “ یہ وہ کتاب ہے جس کے ذریعے سے جہانوں کے پروردگار نے بندوں کے ساتھ کلام کیا، تب مخلوق میں سے کوئی ہستی اس جیسے کلام یا اس کے قریب قریب کلام پر کیوں کر قادر ہوسکتی ہے۔ حالانکہ کلام متکلم کی عظمت اور اس کے اوصاف کے تابع ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہستی اپنی عظمت اور اپنے اوصاف کمال میں اللہ تعالیٰ جیسی ہوسکتی ہے، تو اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ اس قرآن جیسی کتاب بنا لائے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ کسی نے اللہ تعالیٰ پر کتاب گھڑ لی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور فوری سزا دیتا۔ ﴿ وَلَـٰكِن﴾ مگر اللہ تعالیٰ نے کائنات پر بے پایاں رحمت اور تمام بندوں پر حجت کے طور پر اس کتاب کو نازل فرمایا ﴿ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ ” تصدیق کرتی ہے پہلے کلام کی“ یعنی آسمانی کتابیں جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں ان کی تصدیق ہے، یہ کتاب ان کی موافقت اور ان کی شہادت کی بنا پر ان کی تصدیق کرتی ہے، ان کتابوں نے اس کے نازل ہونے کی خوشخبری سنائی تھی اور پھر اسی طرح ہوا جس طرح ان کتب الٰہیہ نے خبر دی تھی۔ ﴿وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ﴾ ” اور کتاب کی تفصیل ہے۔“ یعنی اس میں حلال و حرام، احکام دینیہ، احکام قدریہ اور اخبار صادقہ کی تفصیل ہے۔ ﴿ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔“ یعنی کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، بلکہ یہ یقینی حق ہے اور جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی پرورش اور اس کی تربیت کی۔ سب سے بڑی تربیت کی قسم یہ ہے کہ اس نے ان پر یہ کتاب نازل فرمائی جو ان کے دینی اور دنیاوی مصالح پر مبنی اور مکارم اخلاق اور محاسن اخلاق پر مشتمل ہے۔