سورة یونس - آیت 4

إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم سب کو اللہ ہی کے پاس جانا ہے، اللہ نے سچا وعدہ کر رکھا ہے، بیشک وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی پیدا کرے گا تاکہ ایسے لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے انصاف کے ساتھ جزا دے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے واسطے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملے گا اور دردناک عذاب ہوگا ان کے کفر کی وجہ سے (١)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حکم کونی و قدری، یعنی تدبیر عام اور اپنے حکم دینی یعنی اپنی شریعت، جس کا مضمون اور مقصود صرف اسی کی عبادت ہے جس کا کوئی شریک نہیں، کا ذکر فرمایا تو اپنے حکم جزائی کا ذکر بھی فرمایا۔ یعنی انسان کے مرنے کے بعد اس کے تمام اعمال کی جزا دینا، چنانچہ فرمایا : ﴿إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا﴾ ” اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے“ یعنی وہ تمہارے مرنے کے بعد ایک مقرر وقت پر تم سب کو جمع کرے گا ﴿وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا﴾ ” اللہ کا وعدہ سچا ہے۔“ یعنی اس کا وعدہ سچا ہے اور اس کا پورا ہونا لازمی ہے۔ ﴿ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ﴾ ” وہی پیدا کرتا ہے پہلی بار، پھر دوبارہ پیدا کرے گا اس کو“ پس جو تخلیق کی ابتدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ اس کے اعادے پر بھی قادر ہے۔ لہٰذا وہ شخص جو ابتدائے تخلیق کو تسلیم کرتا ہے پھر وہ اعادہ تخلیق کا انکار کردیتا ہے، عقل سے عاری ہے جو دو مماثل اشیاء میں سے ایک کا انکار کرتا ہے حالانکہ وہ اس تخلیق کا اقرار کرچکا ہے جو زیادہ مشکل ہے۔۔۔۔ یہ زندگی بعد موت کی نہایت واضح عقلی دلیل ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نقلی دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ ” تاکہ بدلہ دے ان کو جو ایمان لائے“ جو صدق دل سے ان تمام امور پر ایمان لائے جن پر ایمان لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ﴿وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور عمل کیے نیک“ وہ اپنے جوارح کے ذریعے سے واجبات و مستحبات پر عمل کرتے ہیں۔ ﴿بِالْقِسْطِ﴾ ” انصاف کے ساتھ“ یعنی اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ ان کے ایمان و اعمال کی جزا دے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ جزا اپنے بندوں کے سامنے بیان کردی ہے اور ان کو آگاہ فرما دیا کہ یہ ایسی جزا ہے کہ کوئی نفس یہ نہیں جانتا کہ اس جزا میں اس کے لئے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” اور وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسول کی تکذیب کی۔ ﴿ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ﴾ ” ان کے لئے پینے کو نہایت گرم پانی ہوگا۔“ جو چہروں کو جھلسا کررکھ دے گا اور انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ ﴿وَعَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ ” اور دردناک عذاب“ انہیں درد ناک عذاب کی تمام اصناف میں مبتلا کیا جائے گا۔ ﴿بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ﴾ ” اس لے کہ وہ کفر کرتے تھے“ یعنی یہ عذاب ان کے کفر اور ظلم کے سبب سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔