لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں (١) جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے (٢) جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں (٣) ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں (٤)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے ان کے اندر نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو خود ان میں سے ہیں وہ آپ کا حال جانتے ہیں، وہ آپ سے اخذ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور آپ کی اطاعت کرنے کو ناپسند نہیں کرتے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بے انتہا خیر خواہ اور ان کے مصالح کے لئے کوشش کرنے والے ہیں۔ ﴿عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ ”تمہاری تکلیف ان پر گراں گزرتی ہے۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر وہ معاملہ بہت شاق گزرتا ہے جو تم پر شاق گزرتا ہے اور تمہیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ ﴿حَرِيصٌ عَلَيْكُم﴾ ” حریص ہیں تمہاری بھلائی پر“ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے بھلائی پسند کرتے ہیں اور تمہیں بھلائی تک پہنچانے کے لئے بھرپور کوشش کرتے ہیں، ایمان تک تمہاری راہ نمائی کے خواہش مند ہیں۔ آپ شر کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور شر سے تمہیں نفرت دلانے کے لئے پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔ ﴿بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ” اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔“ یعنی اہل ایمان کے لئے انتہائی رافت و رحمت کے حامل ہیں بلکہ وہ مومنوں کے لئے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر رحیم ہیں۔ بنا بریں آپ کا حق تمام مخلوق پر فائق اور مقدم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا، آپ کی تعظم کرنا، آپ کی عزت و توقیر کرنا تمام امت پر فرض ہے۔