لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں (١) تو خیر اور اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔
﴿لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ﴾ ” ہمیشہ رہے گا اس عمارت سے جو انہوں نے بنائی، ان کے دلوں میں شبہ“ یعنی شک اور ریب، جو ان کے دل میں جڑ پکڑ گیا ﴿إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ﴾ ” مگر یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں ان کے دل کے“ سوائے اس کے کہ انتہائی ندامت کی بنا پر ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں، وہ اپنے رب کی طرف توبہ کے ساتھ رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈریں، تب اس بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا۔ ورنہ یہ مسجد جو انہوں نے بنائی ہے ان کے شک و ریب اور نفاق میں اضافہ کرتی چلی جائے گی۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ﴾ اور اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کے ظاہر و باطن اور ان کے خفی اور جلی تمام پہلوؤں کو جانتا ہے، نیز وہ ان باتوں کو بھی خوب جانتا ہے جو بندے چھپاتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں۔ ﴿حَكِيمٌ﴾ وہ صرف وہی کام کرتا ہے یا تخلیق کرتا ہے یا وہ حکم دیتا ہے یا منع کرتا ہے، جس کا تقاضا اس کی حکمت کرتی ہے فللّٰہ الحمد۔ ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں : (١) کوئی ایسی مسجد تعمیر کرنا جس سے کسی دوسری مسجد کو نقصان پہنچانا مقصود ہو جو اس کے قرب موجود ہے، حرام ہے، نیز یہ کہ ایسی مسجد ضرار کو، جس کی تعمیر کرنے والوں کا مقصد ظاہر ہو، منہدم کرنا واجب ہو۔ (٢) کام خواہ کتنا ہی فضیلت والا کیوں نہ ہو، فاسد نیت اس کی نوعیت کو بدل ڈالتی ہے، تب وہی کام ممنوع ہوجاتا ہے، جیسے مسجد ضرار کی تعمیر کرنے والوں کی بری نیت نے ان کے اس نیک کام کو برائی میں بدل ڈالا۔ (٣) ہر وہ حالت جس کے ذریعے سے اہل ایمان میں تفرقہ پیدا کیا جائے، گناہ شمار ہوتی ہے اس کو ترک کرنا اور اس کا ازالہ ضروری ہے۔ اسی طرح ہر وہ حالت جس سے اہل ایمان میں اتفاق اور الفت پیدا ہوتی ہے، اس کی پیروی کرنا، اس کا حکم اور اس کی ترغیب دینا ضروری ہے، کیونکہ اس کے مسجد ضرار تعمیر کرنے کی یہ علت بیان کی ہے کہ یہ ان کا فاسد مقصد تھا جو اس مسجد کے ممنوع ہونے کا موجب بنا، جیسے یہ مسجد کفر اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی موجب ہے۔ (٤) اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے معصیت کے مقامات میں نماز پڑھنے اور ان کے قریب جانے سے روکا ہے۔ (٥) گناہ زمین کے ٹکڑوں کو متاثر کرتے ہیں جیسے ان منافقین کے گناہ مسجد ضرار پر اثر انداز ہوئے اور اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح نیکی زمین کے ٹکڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے جیسے مسجد قبا پر اثر انداز ہوئی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کے بارے میں فرمایا : ﴿لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ﴾ بنا بریں مسجد قبا کو یہ فضیلت حاصل ہے جو کسی دوسری مسجد جو حاصل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ہفتے مسجد قبا کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور اس میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ (٦) آیت کریمہ میں مندرجہ بالا تعلیل سے چار اہم شرعی قاعدے بھی مستفاد ہوتے ہیں۔ (الف) ہر وہ کام جس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچتا ہو یا اس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔۔۔۔ اور نافرمانی کفر کی ایک شاخ ہے۔۔۔۔ یا جس سے اہل ایمان میں تفرقہ پیدا ہوتا ہو یا اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے عداوت رکھنے والے کی اعانت ہوتی ہو، تو یہ کام ممنوع اور حرام ہے۔ اس کے برعکس اور متضاد تمام کام مستحب ہیں۔ (ب) چونکہ مسجد قبا وہ مسجد ہے جس کی اساس تقویٰ پر کھی گئی ہے (اس کی یہ فضیلت ہے) جبکہ مسجد نبوی جس کی بنیاد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے رکھی، آپ نے اس میں کام بھی کیا، اللہ تعالیٰ نے بھی اس مسجد کو آپ کے لئے چن لیا، تو اس مسجد کی بنیاد بھی تقویٰ پر ہے اور یہ فضیلت میں زیادہ اولیٰ ہے۔ (ج) وہ عمل جو اخلاص اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے جو اپنے عامل کو نعمتوں بھری جنت میں پہنچائے گا۔ (د) وہ عمل جو برے مقصد اور بدعت و ضلالت پر مبنی ہے یہی وہ عمل ہے جس کی بنیاد کھوکھلے اور بوسیدہ کنارے پر رکھی گئی ہے جو اپنے عامل کو جہنم میں لے گرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کی راہ نمائی نہیں کرتا۔