وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں (١) جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے (٢) اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے (٣) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔
﴿وَآخَرُونَ ﴾ ” اور دوسرے لوگ ہیں“ مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والے دیگر لوگ، بلکہ تمام بلا داسلامیہ کے لوگ ﴿ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ﴾ ” انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔“ ان پر نادم ہوئے، پھر وہ گناہوں سے توبہ کرنے اور ان کی گندگی سے پاک و صاف ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ﴿خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا﴾ ” ملایا انہوں نے ایک نیک کام اور دوسرا برا کام۔“ عمل اس وقت تک صالح نہیں ہوسکتا جب تک کہ بندے کے پاس توحید کی اساس اور ایمان موجود نہ ہو جو اسے کفر اور شرک کے دائرے سے باہر نکالتا ہے اور جو ہر عمل صالح کے لئے شرط ہے۔ پس ان لوگوں نے بعض محرمات کے ارتکاب کی جسارت اور بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہوئے نیک اعمال کو بداعمال کے ساتھ غلط ملط کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔ تو پس یہی وہ لوگ ہیں ﴿ عَسَى اللَّـهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ﴾ ” ممکن ہے اللہ ان کی توبہ قبول کرلے۔‘‘ اللہ تعالیٰ دو طرح سے اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (١) اپنے بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ (٢) پھر بندے کے توبہ کرنے کے بعد اس توبہ کو قبول کرتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی مغفرت اور رحمت اس کا وصف ہے، کوئی مخلوق اس کی مغفرت اور رحمت سے باہر نہیں، بلکہ اس کی مغفرت اور رحمت کے بغیر تمام عالم علوی اور عالم سفلی باقی نہیں رہ سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ظلم کی پاداش میں پکڑ لے تو روئے زمین پر کوئی جاندار نہیں بچے گا۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا﴾ (فاطر : 35؍41)” اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں، اگر وہ ٹل جائیں، تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کو تھام سکے بے شک وہ بہت حلم والا، بخشنے والا ہے۔“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مغفرت ہی ہے کہ اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے، جن کی عمریں برے اعمال میں صرف ہوتی ہیں، جب وہ اپنی موت سے تھوڑا سا پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کے حضور توبہ کرلیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر کے ان کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جس بندے کی نیکیاں اور گناہ ملے جلے ہوں، وہ اپنے گناہوں کا معترف اور ان پر نادم ہو اور اس نے خالص توبہ کی ہو، وہ خوف ورجاء کے مابین ہوتا ہے وہ سلامتی کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اور وہ بندہ جس کی نیکیاں اور گناہ خلط ملط ہوں مگر وہ اپنے گناہوں کا معترف ہو نہ ان پر نادم ہو بلکہ وہ ان گناہوں کے ارتکاب پر مصر ہو، تو اس کے بارے میں سخت خوف ہے۔