أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے (١) جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں (٢) اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے (٣) کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کی ترغیب دی ہے اور دشمنوں سے جو اوصاف صادر ہوتے ہیں ان کو بیان کر کے اہل ایمان کو ان کے خلاف جہاد پر ابھارا ہے، کیونکہ جن اوصاف سے یہ کفار متصف ہیں وہ ان کے خلاف جہاد کا تقاضا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ﴾ ” تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنے عہدوں کو توڑ دیا اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا“ جس کا احترام اور تعظیم و توقیر فرض ہے، نیز انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلا وطن کردیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے امکان بھر کوشش کی۔ ﴿وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ﴾ ” اور انہوں نے پہلے چھیڑ کی تم سے“ جبکہ انہوں نے نقض عہد کا ارتکاب کیا اور تمہارے خلاف دشمن کی اعانت کی اور یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب قریش نے۔۔۔ درآں حالیکہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا۔۔۔ بنو خزاعہ کے خلاف اپنے حلیفوں یعنی بنوبکر کی مدد کی۔ بنو خز اعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے اور قریش نے بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی کی، جیسا کہ اس تفصیل سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔ ﴿أَتَخْشَوْنَهُمْ﴾ ” کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟“ یعنی کیا تم ان سے قتال کرنے سے ڈرتے ہو؟ ﴿فَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ ”حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی تمہیں سخت تاکید کی ہے اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور کفار سے ڈر کر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک نہ کرو۔