يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا (١) تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا (٢) اور پھر گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
یہ آیت کریمہ اسیران بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ان قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ جب رہائی کے عوض ان سے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے عرض کیا کہ انہوں نے اس سے قبل اسلام قبول کیا ہوا تھا، مگر مسلمانوں نے ان سے فدیہ کو ساقط نہ کیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی اور ان لوگوں کی دل جوئی کی خاطر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی جو اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہوں۔ فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّـهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ﴾ ” اے نبی ! ان سے کہہ دو ! جو تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہیں، اگر اللہ تمہارے دلوں میں کچھ نیکی جانے گا، تو تمہیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے“ یعنی جو مال تم سے لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے بدلے خیر کثیر عطا کرے گا۔ ﴿وَيَغْفِرْ لَكُمْ﴾ ” اور (اللہ تعالیٰ) تمہارے گناہ بخش دے گا“ اور تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اپنا وعدہ پورا کردیا، اس کے بعد انہیں بہت زیادہ مال حاصل ہوا، حتیٰ کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مال آیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے کپڑے میں جتنا مال اٹھا سکتے ہیں لے لیں۔ انہوں نے اتنا مال لیا کہ ان سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا۔