سورة الانفال - آیت 16

وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستشنٰی ہے (١) باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے (٢

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ ﴾اور جو کوئی پیٹھ پھیرے ان سے اس دن، مگر یہ کہ ہنر کرتا ہو لڑائی کا یا جا ملتا ہو فوج میں، تو پھر اوہ“ یعنی وہ لوٹا ﴿ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَمَأْوَاهُ﴾” اللہ کا غضب لے کر اور اس کا ٹھکانا“ ﴿جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ﴾” جہنم ہے اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی عذر کے بغیر، میدان جنگ سے فرار ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ جیسا کہ صحیح احادیث میں وار دہوا ہے اور جیسا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرار ہونے والے کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ جنگی چال کے طور پر میدان جنگ سے ہٹنے میں، یعنی میدان جنگ میں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر لڑنا تاکہ اس جنگی چال میں دشمن کو زک پہنچا سکے، کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ میدان جنگ سے منہ موڑ کر نہیں بھاگا بلکہ اس نے دشمن پر غالب آنے کے لئے ایسا کیا ہے، یا اس نے کسی پہلو سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے، یا دشمن کو ھوکہ دینے کے لئے یہ چال چلی ہے، یا دیگر جنگی مقاصد کے لئے ایسا کیا ہے۔ اسی طرح کفار کے خلاف کمک کے طور پر ایک جماعت سے علیحدہ ہو کر دوسری جماعت میں جا کر ملنا بھی جائز ہے۔ اگر لشکر کا وہ گروہ جس کے ساتھ یہ گروہ جا کر ملا ہے، میدان جنگ میں موجود ہے تو ایسا کرنے کا جواز بالکل واضح ہے اور اگر وہ گروہ مقام معرکہ کی بجائے کسی اور مقام پر ہے، مثلاً مسلمانوں کا کفار کے مقابلے سے کسی ایک شہر سے پسپا ہو کر مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر میں پناہ لینا یا ایک میدان جنگ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ دشمن پر حملہ آور ہونا، تو اس بارے میں صحابہ کرام سے جو آراء منقول ہوئی ہیں وہ اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ شاید پسپائی اس شرط سے مشروط ہے کہ مسلمان سمجھتے ہوں کہ پسپائی انجام کار ان کے لئے بہتر اور دشمن کے مقابلے میں زیادہ مفید ہو اور اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ میدان جنگ میں جمع رہنے سے کفار پر ان کو غلبہ حاصل ہوجائے گا تو اس صورت حال میں یہ بعید ہے کہ پسپائی کا جواز ہو، کیونکہ تب میدان جنگ سے فرار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے جس سے روکا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ مطلق ہے۔ (یعنی فرار کی ہر صورت ممنوع ہے) البتہ سورت کے آخر میں اس کو تعداد کے ساتھ مشروط کرنے کا بیان ہے۔ (دیکھئے آیت نمبر 66 کی تفسیر)