أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔
﴿أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں ﴿ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا﴾ ” وہی حقیقی مومن ہیں“ کیونکہ انہوں نے اسلام اور ایمان، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ، علم اور عمل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو جمع کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اعمال قلوب کو مقدم کرکھا ہے، کیونکہ اعمال قلوب، اعمال جوارح کی بنیاد اور ان سے افضل ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ نیکی کے افعال سے ایمان پڑھتا ہے اور اس کے متضاد افعال سے ایمان گھٹتا ہے، نیز بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اس کو نشو و نما دے اور یہ مقصد کتاب اللہ میں تدبر اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنے سے بدرجہ اولیٰ حاصل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے حقیقی ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ﴾” اور ان کے لئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں۔“ یعنی ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات بلند ہوں گے۔ ﴿ وَمَغْفِرَةٌ ﴾ اور ان کے گناہوں کی بخشش ﴿وَرِزْقٌ كَرِيمٌ﴾ ” اور عزت کی روزی“ یہ وہ روزی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اکرام و عزت والے گھر میں اہل ایمان کے لئے تیار کر رکھی ہے جو کسی آنکھ نے دیکھی ہے نہ کسی کان نے سنی ہے اور نہ کسی بشر کا طائر خیال وہاں تک پہنچا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی ایمان میں ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا، وہ اگرچہ جنت میں داخل ہوجائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی کرامت تامہ جو انہیں حاصل ہوئی ہے، اسے حاصل نہیں ہوگی۔