إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (١)
تو اس کامل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ﴾ ” مومن تو صرف وہ ہیں“ الف لام استغراق کے لئے ہے جو تمام شرائع ایمان کو شامل ہے ﴿ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ﴾ ” کہ جب ذکر کیا جائے اللہ کا، تو ڈر جائیں دل ان کے“ یعنی ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور یہ ڈر خشیت الٰہی اور محارم سے اجتناب کا موجب بنتا ہے، کیونکہ خوف الٰہی گناہوں سے باز آنے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ﴿وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا﴾ ” اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو زیادہ کردیتی ہیں ان کو ایمان میں“ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آیات الٰہی کو حضور قلب کے ساتھ غور سے سنتے ہیں تاکہ وہ ان میں غور و فکر کریں جس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہو کیونکہ تدبر، اعمال قلوب میں شمار ہوتا ہے، نیز ان کے لئے معانی کی بھی توضیح ہوتی ہے جن سے وہ لاعلم ہیں اور ان کو ان امور کی یاد دہانی ہوتی ہے جن کو وہ فراموش کرچکے ہیں یا ان کے دلوں میں نیکیوں کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور اپنے رب کے اکرام و تکریم کے حصول کا شوق پیدا ہوتا ہے یا ان کے دل میں عذاب سے خوف اور معاصی سے ڈرپیدا ہوتا ہے اور ان تمام امور سے ایمان پڑھتا ہے۔ ﴿وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ ﴾ ” اور اپنے رب پر‘‘ یعنی اپنے رب وحدہ لاشریک پر ﴿يَتَوَكَّلُونَ﴾ ” وہ بھروسہ کرتے ہیں“ یعنی اپنے مصالح کے حصول اور دینی اور دنیاوی مضرتوں کو دور کرنے میں اپنے دلوں میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہیں پورا وثوق ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام ضرور کرے گا۔ توکل ہی انسانوں کو تمام اعمال پر آمادہ کرتا ہے تو کل کے بغیر اعمال وجود میں آتے ہیں نہ تکمیل پا سکتے ہیں۔