وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (١)۔
یہ ہر اس شخص کے لئے ایک عام حکم ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتا ہے، وہ اسے غور سے سننے اور خاموش رہنے پر امور ہے۔ استماع اور انصات کے درمیان فرق یہ ہے کہ﴿ انْصَات﴾” چپ رہنا‘ ظاہر میں بات چیت اور ایسے امور میں مشغولیت کو ترک کرنے کا نام ہے جن کی وجہ سے وہ غور سے سن نہیں سکتا اور ﴿ اسْتِماع﴾” سننا“ یہ ہے کہ سننے کے لئے پوری توجہ مبذول کی جائے، قلب حاضر ہو اور جو چیز سنے اس میں تدبر کرے۔ کتاب اللہ کی تلاوت کے وقت جو کوئی ان دونوں امور کا التزام کرتا ہے وہ خیر کثیر، بے انتہا علم، دائمی تجدید شدہ ایمان، بہت زیادہ ہدایت اور دین میں بصیرت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے حصول رحمت کو ان دونوں امور پر مترتب قرار دیا ہے اور یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس کے سامنے کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے اور وہ اسے غور سے نہ سنے اور خاموش نہ رہے تو رحمت کے بہت بڑے حصے سے محروم ہوجاتا ہے، وہ خیر کثیر حاصل نہیں کر پاتا اور قرآن سننے والے کو سخت تاکید ہے کہ جہری نمازوں میں، جب کہ امام قراءت کرے، وہ توجہ سے سنے اور خاموش رہے، کیونکہ اسے چپ رہنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ اکثر اہل علم کی رائے ہے کہ نماز کے اندر امام کی قراءت کے وقت خاموش رہنا سورۃ فاتحہ وغیرہ پڑھنے سے اولیٰ ہے۔ [یہ مؤلف کتاب کی اپنی رائے ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، مرحوم کی یہ رائے صحیح نہیں، کیونکہ یہ نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔ احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ امام ہر آیت پر وقف کر کے سورۃ فاتحہ پڑھے اور اس وقفے میں مقتدی بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے جائیں۔ کیونکہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اس طرح وقفوں اور سکتات میں سورۃ فاتحہ پڑھنے سے استماع اور انصات کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور حدیث پر بھی عمل ہوجاتا ہے، ہاں ! البتہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ اور پڑھنا جائز نہیں۔ (ص۔ ی)]