سورة الاعراف - آیت 176

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے (١) یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں (٢)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا﴾ ” اور اگر ہم چاہتے تو اس کا رتبہ ان آیتوں کی بدولت بلند کردیتے‘‘ یعنی ہم اسے آیات الٰہی پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرتے اور یوں وہ دنیا و آخرت میں بلند درجات پاتا اور اپنے دشمنوں سے محفوظ ہوجاتا ﴿وَلَـٰكِنَّهُ﴾مگر اس نے ایسے افعال سر انجام دیئے جو اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی توفیق سے محروم کر دے۔ ﴿أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ﴾ ”وہ ہورہا زمین کا“ یعنی وہ سفلی جذبات و خواہشات اور دنیاوی مقاصد کی طرف مائل ہو گیا﴿ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ﴾ اور خواہشات نفس کے پیچھے لگ گیا اور اپنے آقا و مولیٰ کی اطاعت چھوڑ دی۔﴿ فَمَثَلُهُ ﴾ ” تو اس کی مثال“ پس دنیا کی حرص کی شدت اور اس کی طرف میلان میں اس کی حالت یہ ہوگئی ﴿ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ﴾ ” جیسے کتا ہوتا ہے، اس پر تو بوجھ لادے تو ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے“ یعنی وہ ہر حال میں (حرص کی وجہ سے) زبان باہر نکالے رکھتا ہے، سخت لالچی بنا رہتا ہے، اس میں ایسی حرص ہے جس نے اس کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے دنیا کی کوئی چیز اس کی محتاجی کو دور نہیں کرسکتی۔﴿ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا﴾ ’’یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا“ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اپنی آیات بھیجیں مگر انہوں نے ان کی اطاعت نہ کی بلکہ انہوں نے خواہشات نفس کی پیروی میں ان آیات کو جھٹلا کر ٹھکرادیا ﴿ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴾ ” پس بیان کرو یہ احوال، تاکہ وہ غور و فکر کریں“ یعنی شاید وہ ان ضرب الامثال، آیات الٰہی اور عبرتوں میں غور و فکر کریں، کیونکہ جب وہ غور و فکر کریں گے تو انہیں علم حاصل ہوگا، جب علم حاصل ہوگا تو اس پر عمل بھی کریں گے۔