وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس رات مزید سے ان تیس راتوں کو پورا کیا۔ سو ان کے پروردگار کا وقت پورے چالیس رات کا ہوگیا (١) اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے کہا کہ میرے بعد ان کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا (٢)
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلا کر اور زمین میں اقتدار عطا کر کے ان پر اپنی نعمت کی تکمیل کردی تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ شرعی احکام اور صحیح عقائد پر مشتمل کتاب نازل کر کے ان پر معنوی نعمت کی بھی تکمیل کر دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس راتیں اور شامل کر کے چالیس راتوں کی میعاد پوری کردی تاکہ موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں، تاکہ اس کے نزول کا موقع ان کے ہاں ایک عظیم موقع ہو اور اس کے نزول کا انہیں اشتیاق ہو۔ جب موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کے مقرر کردہ وعدے پر جانے لگے تو انہوں نے ہاورن علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے بارے میں، جن پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے، وصیت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي﴾ ” میرے بعد تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“ یعنی تم ان کے اندر میرے خلیفہ ہو، ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا جو میں کیا کرتا تھا ﴿وَأَصْلِحْ ﴾” اصلاح کرتے رہنا۔“ یعنی اصلاح کے راستے پر گامزن رہنا۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ ” اور مفسدوں کی راہ مت چلنا“ یہاں مفسدین سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں۔