سورة الاعراف - آیت 133

فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے (١) سو وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ﴾ ” ہم نے ان پر طوفان بھیجا۔“ یعنی ہم نے بہت بڑا سیلاب بھیجا جس میں ان کی کھیتیاں اور باغات ڈوب گئے اور انہیں بہت بڑا نقصان اٹھاناپڑا۔ ﴿وَالْجَرَادَ﴾ ” اور ٹڈیاں“ ہم نے ان پر ٹڈی دل بھیجا جو ان کے باغات، کھیتوں اور ہر قسم کی نباتات کو چٹ کر گیا۔ ﴿وَالْقُمَّلَ ﴾ ” اور جوئیں۔“ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد چھوٹی ٹڈی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس سے مراد معروف جوں ہے۔ ﴿وَالضَّفَادِعَ﴾ ” اور مینڈک“ پس مینڈکوں نے ان کے برتنوں وغیرہ کو بھر دیا، ان کے لئے سخت تکلیف اور قلق کا باعث بنے ﴿ وَالدَّمَ ﴾” اور خون“ یا تو اس سے مراد نکسیر ہے یا اس سے مراد یہ ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ ان کا پینے والا پانی خون میں بدل جاتا تھا، وہ خون کے سوا کچھ نہیں پی سکتے تھے اور کچھ نہیں پکا سکتے تھے۔ ﴿ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ﴾ ” نشانیاں جدا جدا“ یہ اس بات کے واضح دلائل تھے کہ وہ جھوٹے اور ظالم ہیں اور موسیٰ علیہ السلام حق اور صداقت پر ہیں۔ ﴿ فَاسْتَكْبَرُوا﴾ ” پس انہوں نے تکبر کیا۔“ جب انہوں نے ان معجزات الٰہی کو دیکھا تو تکبر کرنے لگے﴿ وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ ﴾ ”اور وہ لوگ تھے ہی گناہ گار۔“ یعنی پہلے ہی سے ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مجرموں کی قوم تھی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی اور ان کو گمراہی پر برقرار رکھا۔