قَالُوا أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ
قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی (١) اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی (٢) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور بجائے ان کے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا (٣)۔
﴿قَالُوا﴾ بنی اسرائیل نے، جو کہ طویل عرصے سے فرعون کی تعذیب اور عقوبت برداشت کرتے کرتے تنگ آچکے تھے۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام سے کہا : ﴿أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا﴾ ” ہمیں تکلیفیں دی گئیں آپ کے آنے سے پہلے“ کیونکہ انہوں نے ہمیں بدترین عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا وہ ہمارے بیٹوں کو قتل کردیا کرتے تھے اور ہماری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے ﴿وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ ” اور آپ کے آنے کے بعد بھی“ ایسا ہی سلوک ہے﴿ قَالَ﴾ جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان کو آل فرعون کے شر سے نجات اور اچھے وقت کی امید دلاتے ہوئے فرمایا : ﴿عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” امید ہے کہ تمہارے رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنا دے“ یعنی زمین میں تمہیں حکومت عطا کر دے اور زمین کا اقتدار اور تدبیر تمہارے سپرد کر دے۔ ﴿فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ﴾ ” پھر دیکھے تم کیسے کام کرتے ہو“ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہو یا ناشکری کرتے ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وعدہ تھا اور جب وہ وقت آگیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا تو اس نے یہ وعدہ پورا کردیا۔