سورة الاعراف - آیت 20

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ (١) ڈالا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ (٢) کردے اور کہنے لگے کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ”وَسْوَسَةٌ“ اور وِسْوَاسٌ، زَلْزَلَةٌ اور زِلْزَالٌ کے وزن پر ہے۔ پست آواز اور نفس کی بات۔ شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔ 2- یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاو سے حضرت آدم وحوا کو اس لباس جنت سے محروم کرکے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لئے دیا گیا تھا ”سَوْآتٌسَوْءَةٌ (شرم گاہ) کی جمع ہے. شرم گاہ کوسَوْءَةٌ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔