وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور اونٹ میں دو قسم اور گائے میں دو قسم (١) آپ کہئے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اسکو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا (٢) تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے (٣) تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے یقیناً اللہ تعالیٰ ظالم کو راست نہیں دکھلاتا۔
1- یہ بھی ثَمَانِيَةَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر اور مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہوگئیں۔ 2- یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے؟ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔ 3- یعنی یہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا تھا (صحيح بخاری سورة المائدة- صحيح مسلم، كتاب الجنة، باب النار يدخلها الجبارون والجنة ... يدخلها الضعفاء) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمرو بن لحی، خزاعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا والی بنا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی اور حجاز میں بت قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کرلینا ، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔