وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور اللہ تعالیٰ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کئے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا اور خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے (١) پھر جو چیز ان کے معبودوں کی ہوتی ہے وہ تو اللہ کی طرف نہیں پہنچتی (٢) اور جو چیز اللہ کی ہوتی ہے وہ ان کے معبودوں کی طرف پہنچ جاتی ہے (٣) کیا برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
1- اس آیت میں مشرکوں کے اس عقیدہ وعمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھے تھے۔ وہ زمینی پیداوار اور مال مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے مقرر کرلیتے۔ اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقراء اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو بتوں کے مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقررہ حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکاﻝ کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہوتا تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔ 2- یعنی اللہ کے حصے میں کمی کی صورت میں بتوں کے مقررہ حصے میں سے تو صدقات وخیرات نہ کرتے۔ 3- ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔