وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے (١) اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کردیتے ہیں (٢) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (٣)
* جیسا کہ وہ بار بار اس کا مطالبہ ہمارے پیغمبر سے کرتے ہیں۔ ** اور وہ حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کی رسالت کی تصدیق کردیتے۔ *** دوسرا مفہوم اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں، وہ سب ان کے روبرو پیش کردیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہوکر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کردینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے۔ اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ، وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِيمَ﴾ (سورۃ یونس: 96۔ 97) ”جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں“۔ **** اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور پھر اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا بھی لیں۔