وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ
اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی (١) اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے (٢) تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضہ میں ہیں (٣) اور تم کو اس کی کیا خبر وہ نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ لائیں گے۔
* جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ، أَيْ: حَلَفُوا أَيْمَانًا مُؤَكَّدَةً۔ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔ ** یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ (عليہ السلام) ، احیائے موتی اور ناقۂ ثمود وغیرہ جیسا۔ *** ان کا یہ مطالبۂ خرق عادت تعنت وعناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبریل (عليہ السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی یہ ایمان نہ لائے تو پھرانہیں ہلاک کردیا جائے گا، جسے نبی (ﷺ) نے پسند نہیں فرمایا۔ (ابن کثیر )۔