قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ
آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے (١) یا تو تمہارے پاؤں تلے سے (٢) یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے (٣) آپ دیکھئے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ جائیں۔
1- یعنی آسمان سے، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب۔ یا امرا وحکام کی طرف سے ظلم وستم۔ 2- جیسے دھنسایا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بددیانت اور خائن ہوجائیں۔ 3- ”يَلْبِسَكُمْ“ أَيْ يَخْلُطَ أَمْرَكُمْ تمہارے معاملے کو غلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاوء۔ ”وَيُذِيقَ“: أَيْ يَقْتلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَتُذِيقَ كُلُّ طَائِفَةٍ الأُخْرَى أَلَمَ الْحَرْبِ۔ تمہارا ایک، دوسرے کو قتل کرے۔ اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کو لڑائی کا مزہ چکھائے (ایسرالتفاسیر) حدیث میں آتا ہے نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں۔۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے۔ 2۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ 3۔ آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں۔ اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا۔ (صحیح مسلم، نمبر 2216) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف وَانْشِقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن وحدیث سے اعراض ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق وکردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے۔ جس میں تبدیلی ممکن نہیں ﴿فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلا، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا﴾ (فاطر: 43)