وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں (١) ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (٢) پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے (٣)۔
* یعنی انہیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انہیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت وعلم کے تحت داخل ہیں۔ **کتاب (دفتر) سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ﴾ (النحل: 89) ”ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے“۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔ *** یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کرکے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا بھی حساب کتاب ہوگا۔ جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا“۔ (صحيح مسلم-نمبر 1997) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے۔ یعنی سب کو موت آئے گی۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے۔ اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں، وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں۔ اور حدیث مذکور (جس میں بکری سے بدلہ لئے جانے کا ذکر ہے) بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب وکتاب کی اہمیت وعظمت کو واضح کرنا ہے۔ یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کرکے ظالم سے مظلوم کا بدلہ دلا دیا جائے گا۔ پھر دونوں معدوم کر دیئے جائیں گے۔ (فتح القدیر وغیرہ) اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔