إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ (١) آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو (٢)۔
”مَائِدَةً“ ایسے برتن (سینی، پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لئے دسترخوان بھی اس کا ترجمہ کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے حَوَارِيِّينَ نے مزید اطمینان قلب کے لئے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ 2- یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے وحی کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم نَبِيَّةٌ تھیں، اس لئے کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے وحی آئی تھی، صحیح نہیں۔ اس لئے کہ یہ وحی، وحی الہام ہی تھی، جیسے یہاں ﴿أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ﴾ میں ہے یہ وحی رسالت نہیں ہے۔