يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو جمع کرے گا، پھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھا، وہ عرض کریں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں (١) تو ہی پوشیدہ باتوں کو پورا جاننے والا ہے۔
1- انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم تو یقیناً انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی ہولناکیوں اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت وعظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو کلیتاً صرف اللہ ہی کو ہے۔ اسی لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو، توہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء ورسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ بھی علم ہوتا ہے، اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیاً ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی ہی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہوا اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا، نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے۔ فَافْهَمْ وَتَدَبَّرْ وَلا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ