سورة المآئدہ - آیت 105

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں (١) اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امربالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کردے گا تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا؟ جب کہ قرآن نے ﴿إِذَااهْتَدَيْتُمْ﴾(جب تم خود ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اسی لئے جب ابوبکر صدیق (رضی الله عنہ) کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا کہ ”لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے“۔ (مسند أحمد جلد 1ص5، ترمذی نمبر 2178، أبو داود نمبر 4338) اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امر بالعروف ونہی المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس صورت میں [ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيْمَانِ ] کے تحت اس کی گنجائش ہے۔ آیت بھی اس صورت کی متحمل ہے۔