يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی (١) سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کردیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے۔
* یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (ﷺ) بھی صحابہ (رضی الله عنہم) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے فرمایا ”مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی“۔ (صحيح البخاری نمبر 7289، وصحيح مسلم، كتاب الفضائل باب توقيره (ﷺ) وترك إكثار سؤاله)