يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو (١)
1- یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ، جوا پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کر کے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آؤ گے یا نہیں؟ جس سے مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چنانچہ جو اہل ایمان تھے، وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہوگئے۔ اور کہا انْتَهَيْنَا رَبَّنَا! اے رب ہم باز آگئے (مسند أحمدجلد 2، صفحہ 351) لیکن آج کل کے بعض دانشور کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ ”برین عقل ودانش بباید گریست“ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا، نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لئے کافی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے، شیطانی کام بھی جائز ہے، جس کے متعلق اللہ اجتناب کا حکم دے، وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے، وہ بھی جائز ہے۔ إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔