سورة المآئدہ - آیت 82

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے (١) اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقیناً انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اس لئے کہ ان میں علماء اور عبادت کے لئے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے (٢)۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس لئے کہ یہودیوں کے اندر عناد وجحود، حق سے اعراض واستکبار اور اہل علم وایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ (ﷺ) پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملے میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ 2- ”رُهْبَانٌ“ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ اور ”قِسِّيسِينَ“ سے مراد علماء وخطباء ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم وتواضع ہے، اس لئے ان میں یہودیوں کی طرح جحود واستکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیحی میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی اس کو پیش کر دو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمانوں کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا یہ وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے۔ تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم وبیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب وہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لئے قرآن نے دونوں سے ہی دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔