قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ کرو، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا (١) ہی تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں۔
1- یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال واشیا سے اہل ایمان کے ایمان وتصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر وطغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے۔ مثلاً ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ﴾ (حم السجدة: 44) ”فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوﮞ میں گرانی (بہراپن) ہے اور یہ ان پر اندھاپن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے“۔ ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلا خَسَارًا﴾ (بنی إسرائيل: 82) ”اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو نقصان ہی کا بڑھانا ہے۔