يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو (١) تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں (٢) بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے (٣) مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم کرتا ہے۔
1- ”عُقُودٌ“ ”عَقْدٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں۔ اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لئے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہد و پیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی ہیں جن کا اللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھہرایا ہے اور عہد وپیمان ومعاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔ 2- ”بَهِيمَةٌ“ چوپائے (چار ٹانگوں والے جانور) کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بَهْمٌ، إِبْهَامٌ ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل و فہم میں چونکہ ابہام ہے، اس لئے ان کو بَهِيمَةٌ کہا جاتا ہے۔ ”أَنْعَامٌ“ اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے۔ یہ بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں، جن کی تفصیل سورۃ الانعام آیت نمبر143میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، جن کا عموماً شکار کیا جاتا ہے، یہ بھی حلال ہیں۔ البتہ حالت احرام میں ان کا اور دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانورذُو نَابٍ اور جو پرندے ذُو مِخْلَبٍ نہیں ہیں، وہ سب حلال ہیں، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت نمبر 173 کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذُو نَابٍ کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنے کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو اور چیرتا ہو، مثلاً شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا وغیرہ اور ذُو مِخْلَبٍ کا مطلب ہے وہ پرندہ جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو۔ مثلاً شکرہ، باز ، شاہین، عقاب وغیرہ۔ 3- ان کی تفصیل آیت نمبر 3 میں آ رہی ہے۔