سورة البقرة - آیت 59

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی (١) بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ظالموں پر ان کے فسق اور نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب (٢) نازل کیا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ان کو حکم دیا گیا تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سرینوں کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حَبَّة فِي شَعرَةٍ (یعنی گندم بالی میں) کہتے رہے۔ اس سے ان کی اس سرتابی وسرکشی کا، جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الٰہی سے تمسخر واستہزا کا جس کا ارتکاب انہوں نے کیا، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اخلاق وکردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہیہ کے ساتھ اسی طرح کا ہوجاتا ہے۔ 2- یہ آسمانی عذاب کیا تھا؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ“ (صحيح مسلم، كتاب السلام باب الطاعون والطيرة والكهانة ونحوها حديث 2218)