وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
1-جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا، توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا : ﴿فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ﴾ ”اپنے کو آپس میں قتل کرو“ کی دو تفسیریں کی گئی ہیں : ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کردیاگیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ دوسری، یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کردیا گیا اور جو اس سے محفوظ رہے تھے، انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)۔