كَلَّا ۖ بَل لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ
ایسا ہرگز نہیں (١) بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے (٢)
1- یعنی بات اس طرح نہیں ہے جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مال اپنے محبوب بندوں کو بھی دیتا ہے اور ناپسندیدہ افراد کو بھی، تنگی میں بھی وہ اپنوں اور بیگانوں دونوں کو مبتلا کرتا ہے۔ اصل مدار دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت پر ہے۔ جب اللہ مال دے تو اللہ کا شکر کرے، تنگی آئے تو صبر کرے۔ 2- یعنی ان کے ساتھ وہ حسن سلوک نہیں کرتے جس کے وہ مستحق ہیں، نبی (ﷺ) کا فرمان ہے ”وہ گھر سب سے بہتر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور وہ گھر بدترین ہے جس میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ پھر انگلی کے ساتھ اشارہ کرکے فرمایا، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ساتھ ملی ہوئی ہیں“۔ ( أبو داود، كتاب الأدب، باب في ضم اليتيم)