وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا (١)
1- ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم وستم سے تنگ آکراللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم وستم کا شکار اورنرغۂ کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کو کافروں کے ظلم وستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں۔ یہ جہاد کی دوسری قسم ہے۔ پہلی قسم ہے إعلاءِ كَلِمَةِ الله یعنی دین کی نشر واشاعت اور كَلِمَةِ الله کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔