مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو (١) اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسی) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
1- أَسْفَارٌ، سِفْرٌ کی جمع ہے۔ معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے۔ اس لیے کتاب کو بھی سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہوئی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے؟ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں ، اس کو پڑھنے اور یاد کرنے کے وعدے بھی کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھتے ہیں نہ اس کے مقتضا پر عمل کرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل وتحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم وشعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿أُولَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ﴾ (الأعراف: 179) ”یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ“۔ یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علما کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں، اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کے مقتضا پر عمل نہیں کرتے۔