سورة ق - آیت 29
مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب
میرے ہاں بات بد لتی نہیں (١) نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا ہوں۔
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1- یعنی جو وعدے میں نے کیے تھے، ان کے خلاف نہیں ہوگا بلکہ وہ ہر صورت میں پورے ہوں گے اور اسی اصول کے مطابق تمہارے لئےعذاب کا فیصلہ میری طرف سے ہوا ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ 2- کہ بغیر جرم کےجو انہوں نے نہ کیا ہو اور بغیر گناہ کے جس کا صدور ان سے نہ ہوا ہو، میں ان کو عذاب دے دوں؟ ظلام یہاں ظالم کے معنی میں ہے۔ یا محاورۃ بولا گیا ہے، جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اپنے غلاموں پر بڑا ظلم کرتا ہے، فلاں شخص بڑا ظالم ہے مقصد، مبالغے کا نہیں بلکہ صرف اس کی طرف سے ظلم کیے جانے کا اظہار ہوتا ہے۔ یا مقصود نفی میں مبالغہ ہے۔ یعنی میں بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں۔