هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں (١) اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں (٢) اور اللہ تعالیٰ دانا با حکمت ہے۔
1- یعنی اس اضطراب کے بعد، جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی، جس سے ان کےدلوں کو اطمینان، سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا۔ یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ 2- یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلاً فرشتوں) سے کفار کو ہلاک کروا دے۔ لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال وجہاد کا حکم دیا۔ اسی لئے آگے اپنی صفت علیم وحکیم بیان فرمائی ہے۔ یا مطلب ہے کہ آسمان وزمین کےفرشتے اور اسی طرح دیگر ذی شوکت وقوت لشکر سب اللہ کے تابع ہیں اور ان سے جس طرح چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ بعض دفعہ وہ ایک کافر گروہ کو ہی دوسرے کافر گروہ پر مسلط کرکے مسلمانوں کی امداد کی صورت پیدا فرما دیتا ہے۔ مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اے مومنو ! اللہ تعالیٰ تمہارا محتاج نہیں ہے، وہ اپنے پیغمبر اور اپنے دین کی مدد کا کام کسی بھی گروہ اور لشکر سے لے سکتا ہے۔ (ابن کثیر وایسر التفاسیر)۔