فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ
تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ (١) اور جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (٢) (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ (٣) لے کر چھوڑ دو یہی حکم ہے اور (٤) اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا (٥) لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے لے لے، ( ٦) جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (٧)
1- جب دونوں فریقوں کا ذکر کر دیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ قتل کرنے کے بجائے۔ گردنیں مارنے کا حکم دیا، کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر)۔ 2- یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد، ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں، انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ 3- مَنٌّ کا مطلب ہے بغیر فدیہ لئے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب، کچھ معاوضہ لےکر چھوڑنا ہے، قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت، حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کےحق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کر لی جائے۔ 4- یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہو جائے، یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کرکےہتھیار رکھ دے یا اسلام غالب آجائے اور کفر کا خاتمہ ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ صورت حال نہ ہو جائے، کافروں کے ساتھ تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے، بعض کہتےہیں، یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کےکوئی صورت باقی نہیں ہے۔ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے۔ اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے، کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے۔ قیدیوں میں سے جس کو یاسب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر)۔ 5- یا تم اسی طرح کرو، (افْعَلُوا ذَلِك یا ذَلِكَ حُكْمُ الْكُفَّارِ)۔ 6- مطلب کافروں کو ہلاک کرکے یا انہیں عذاب میں مبتلا کرکے۔ یعنی ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ 7- یعنی تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ وہ جان لے کہ تم میں سے اس کی راہ میں لڑنے والے کون ہیں؟ تاکہ ان کو اجر وثواب دے اور ان کے ہاتھوں سے کافروں کو ذلت وشکست سے دوچار کرے۔ 8- یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔