سورة الدخان - آیت 37

أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ لوگ بہتر ہیں یا تمہاری قوم کے لوگ اور جو ان سے بھی پہلے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا یقیناً وہ گنہگار تھے (١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی یہ کفار مکہ کیا تبع اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد وثمود وغیرہ سے زیادہ طاقت ور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کردیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ تبع سے مراد قوم سبا ہے۔ سبا میں حمیر قبیلہ تھا، یہ اپنے بادشاہ کو تبع کہتے تھے، جیسے روم کے بادشاہ کو قیصر، فارس کے بادشاہ کو کسریٰ، مصر کے حکمران کو فرعون اور حبشہ کے فرماں روا کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ اہل تاریخ کا اتفاق ہے کہ تبابعہ میں سے بعض تبع کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ حتیٰ کہ بعض مورخین نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ملکوں کو فتح کرتے ہوئے سمرقند تک پہنچ گیا، اس طرح اور بھی کئی عظیم بادشاہ اس قوم میں گزرے اور اپنے وقت کی یہ ایک عظیم ترین قوم تھی جو قوت وطاقت، شوکت وحشمت اور فراغت وخوشحالی میں ممتاز تھی۔ لیکن جب اس قو م نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی تو اسے تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ سبا کی متعلقہ آیات) حدیث میں ایک تبع کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا، اسے سب و شتم نہ کرو (مجمع الزوائد 87 / 86 ،صحیح الجامع للالبانی، 1319) تاہم ان کی اکثریت نافرمانوں کی ہی رہی ہے جس کی وجہ سے ہلاکت ان کا مقدر بنی۔