يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے (١) اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں انہیں اس کے حق ہونے کا پورا علم ہے یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں لڑ جھگڑ رہے ہیں وہ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں (٢)
1- یعنی استہزا کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں ہے؟ اس لیے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔ 2- اس لیے کہ ایک تو ان کو اس کے وقوع کا پورا یقین ہے۔ دوسرے ان کو خوف ہے کہ اس روز بے لاگ حساب ہوگا، کہیں وہ بھی مواخذہ الٰہی کی زد میں نہ آجائیں۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ (المؤمنون: 60)۔ 3- يُمَارُونَ، مُمَارَاةٌ سے ہے جس کے معنی لڑنا جھگڑنا ہیں۔ یا مریہ سے ہے، بمعنی ریب وشک۔ 4- اس لیے کہ وہ ان دلائل پر غوروفکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کےموجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز وشب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل وفہم میں آسکتے ہیں۔ اس لیے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔