إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں (١) وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (٢) (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ (٢) تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ (٣) وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔ (٤)
1- یعنی ان کو مانتے نہیں بلکہ ان سے اعتراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہما) نے الحاد کے معنی کیے ہیں وَضْعَ الْكَلَاَمِ عَلَى غَيْرِ مَوَاضِعِهِ، جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آ جاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لیے آیات الٰہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔ 2- یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کےہوں) کے لیے سخت وعید ہے۔ 3- یعنی کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں یقیناً نہیں۔ علاوہ ازیں اس سے اشارہ کر دیا کہ ملحدین آگ میں ڈالے جائیں گے اوراہل ایمان قیامت والے دن بے خوف ہوں گے۔ 4- یہ امر کالفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر وشرک اور معاصی کے لیے اذن اور اباحت نہیں ہے۔