وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں (١) اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے (٢) مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کر دے۔ (٣)
1- یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔ 2- یہ غالباً فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (عليہ السلام) کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔ 3- یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہارہے کہ میں دیکھوں گا، اس کارب اسے کیسے بچاتا ہے،اسے پکار کر دیکھ لے۔ یارب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچالے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔ 4- یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی، تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث وتکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو گا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے فساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا۔ دراں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔