خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے (١) پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا (٢) اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے (٣) وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا (٤) ہے تین تین اندھیروں (٥) میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے ہو۔
1- یعنی حضرت آدم (عليہ السلام) سے، جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی تھی۔ 2- یعنی حضرت حوا کو حضرت آدم (عليہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا اور یہ بھی اس کا کمال قدرت ہے کیونکہ حضرت حوا کے علاوہ کسی بھی عورت کی تخلیق، کسی آدمی کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ یوں یہ تخلیق امر عادی کے خلاف اور اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ 3- یہ وہی چار قسم کے جانوروں کا بیان ہے بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے جو نر اور مادہ مل کر آٹھ ہو جاتے ہیں، جن کا ذکر سورۂ انعام: آیت 143-144 میں گزر چکا ہے۔ أَنْزَلَ بِمَعْنَى خَلَقَ ہے یا ایک روایت کے مطابق، پہلے اللہ نے انہیں جنت میں پیدا فرمایا اور پھر انہیں نازل کیا، پس یہ انزال حقیقی ہوگا۔ یا أَنْزَلَ کا اطلاق مجازاً ہے اس لئے کہ یہ جانور چارے کے بغیر نہیں رہ سکتے اور چارہ کی روئیدگی کے لئے پانی ناگزیر ہے۔ جو آسمان سے ہی بارش کے ذریعے سے اترتا ہے۔ یوں گویا یہ چوپائے آسمان سے اتارے ہوئے ہیں، (فتح القدیر)۔ 4- یعنی رحم مادر میں مختلف اطوار سے گزارتا ہے، پہلے نطفہ، پھر عَلَقَةً پھر مُضْغَةً، پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ، جس کے اوپر گوشت کا لباس۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کامل تیار ہوتا ہے۔ 5- ایک ماں کے پیٹ کا اندھیرا، دوسرا رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرا مشیمہ کا اندھیرا، وہ جھلی یا پردہ جس کے اندر بچہ لیٹا ہوا ہوتا ہے۔ 5-1- یا کیوں تم حق سے باطل کی طرف اور ہدایت سے گمراہی کی طرف پھر رہے ہو؟